آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر فیصلہ محفوظ

 سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ،فیصلہ آج دوپہرسنایا جائے گا اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3سالہ توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے، اس موقع پر سپریم کورٹ کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہیں جبکہ آنے والوں کوسخت چیکنگ کے بعدداخلےکی اجازت دی جارہی ہے اور غیر متعلقہ اشخاص کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔

اٹارنی جنرل انورمنصور، سابق وزیر قانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے ،اٹارنی جنرل آج آرمی چیف کی توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کریں گے، وزیراعظم معاون خصوصی برائےاحتساب شہزاداکبر  بھی عدالت میں موجود ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے  اٹارنی جنرل انورمنصور سے استفسار کیا جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کےکاغذات اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کیسےہوئی کاغذات بھی منگوالیں ، آپ نے کل فرمایا جنرل کبھی ریٹائرڈنہیں ہوتا ، بتایاجائے راحیل شریف نے اپنا عہدہ کیسے چھوڑا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتے توانھیں پنشن بھی نہیں ملتی ہوگی، آپ دستاویزات منگوالیں تو15منٹ بعدکیس سن لیتےہیں ، اس دوران ہم دیگرکیسزسن لیتے ہیں۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سماعت میں 15منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاوہ کاغذات منگوالئےجوہم نے کہے تھے، جس پر ،اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا جی کاغذات سے متعلق بول دیا ہے وہ آرہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نےآرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق نئی سمری پیش کردی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے کچھ اور بھی فرمانا ہے یا بس، سوال یہ ہے اب آپ نے جوطریقہ کار اختیار کیا وہ درست یا نہیں ، اب مکمل طریقہ کار تبدیل ہوگیاہے، اب آپ عدالت کومطمئن کریں کہ یہ طریقہ کاردرست ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس سمری میں آپ عدالت کو کیوں بیچ میں لارہےہیں، یہ تویوں لگ رہا ہے سپریم کورٹ احکامات پریہ سب ہورہاہے، آپ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ، عدالت کا کندھا کیوں استعمال کر رہےہیں، یہ آپ کااپنا معاملہ ہے اس میں ہمارا ذکر نہ کریں، ہمارا ذکر اس سمری سے باہر نکالیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نے 28 نومبر کی تقرری کردی ہے، آج تو اسامی خالی نہیں ہوئی تو اس پر تقرری کیسےہوگئی، اس طریقہ کار اور آج کی تاریخ میں کوئی  غلطی نہیں ہے، ہمیں نظر آرہا ہے کہ آپ نے کل معاملے پرغورکیاہے ، تقرری ہوتی ہی آئین کےمطابق ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا آپ نے معاملے پر عدالت کا ایڈوائزری رول لکھ دیااسےنکالیں، جب تک صدرخودایڈوائزری رول نہ مانگے عدالت کا کردار نہیں بنتا ، اٹارنی جنرل انورمنصور نے عدالت کو بتایا ستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی، آرٹیکل243کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا نئی تعیناتی آرٹیکل243 ون بی کے تحت کی گئی ہے،چیف جسٹس نے کہا عدالت کی ایڈوائس والاحصہ سمری سےنکالیں ، صدر اگر ہماری  ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیں گے، جسٹس منصورعلی کا کہنا تھا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نےپہلی مرتبہ کوشش کی ہےکہ آئین پرواپس آئیں ، جو چیز آئین وقانون کے مطابق ہو توہمارےہاتھ بھی بندھ جاتےہیں، لیکن سمری میں سپریم کورٹ کا ریفرنس ہمیں نہیں چاہیے، معاملے میں جوبات کھٹک رہی ہےوہ 3 سال کی مدت ہے، آئین کے آرٹیکل 243 میں ایسا کچھ نہیں  لکھا ہے ، آج ہم نے توسیع کردی تو 3 سال کی مدت پرمہرلگ جائے گی، کل آرمی ایکٹ کاجائزہ لیاتوبھارتی،سی آئی اےایجنٹ کہاگیا۔

اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایاگیا، جس پر ،چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وارکاحصہ ٹھہرایا گیا، وہ ہماراحق ہےکہ سوال پوچھیں جبکہ جسٹس منصور نے کہا اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے ، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں۔

جسٹس منصور علی شاہ مزید کہا کہآرٹیکل 243 میں مدت ملازمت نہیں ہے ، اپنی سمری کوآرٹیکل 243 کے ضابطے کےاندر لائیں، چیف جسٹس نے کہا  آرٹیکل243کےساتھ آپ نے3 سال لکھ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا الجہاد ٹرسٹ کیس ہمارے سامنےہے۔

سپریم کورٹ نے جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پرمشروط رضامندی ظاہرکردی ، چیف جسٹس نے کہا آپ نے کہا ہے قانونی  سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں، ہم 3 ماہ کےلئے اس کی توسیع کردیتے ہیں، جنھوں نے ملک کی خدمت کی ان کابہت احترام ہے،ہمیں آئین وقانون کا سب  سے زیادہ احترام ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے لیے ہمیں 6ماہ کا وقت دیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا حکومت پہلی بارآئین پرواپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کےمطابق ہوتوہمارےہاتھ بندھ جاتے ہیں، عدالت نےتوسیع کردی تویہ قانونی مثال بن جائےگی، لگتا ہے تعیناتی کےوقت حکومت نےآرٹیکل243میں پڑھتےہوئےاضافہ کردی، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جہاں مدت کاذکرنہ ہو تو حالات کےمطابق مدت مقررہوتی ہے، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہےہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گاتوپھرکیا30سال کیلئےتوسیع دیں گے، جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا پہلےتوکسی کوایک سال کسی کو2سال کی توسیع دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرہوتےہیں، آپ کہہ رہے تھےکہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کو اس ابہام کودورکرنا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتےرہےہیں، پھر ہم کو ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ ابھی جاکرقانون بناکرآئیں، جوقانون72سال میں نہیں بن سکتاوہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرےپاس کوئی قانون نہیں سوائےدستاویزکے، ہم کوشش کررہےہیں کہ معاملے پرکوئی قانون بنائیں۔

جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے،اٹارنی جنرل انورمنصور کا کہنا تھا کہ ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے تو چیف جسٹس نے مزید کہا کہاجاتا ہے کہ عدالت خود نوٹس لے، عدالت ازخود نوٹس کیوں لے؟ ریاض حنیف راہی عدالت میں آئے ہیں، ہم انہیں جانے نہیں دے رہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور توسیع پرفیصلہ آج دوپہرسنائےگی اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں۔

، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سمری سے عدالت کا ذکر ختم کیا جائے، سمری میں مدت ملازمت کا تعین ختم کیا جائے، تنخواہ اور مراعات کے حوالے سےتصحیح کی جائے اور ماہ میں پارلیمنٹ سےقانون سازی کی یقین دہانی کرائی جائے۔

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں آرٹیکل243میں بہتری کریں گے ، اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں، حلفیہ بیان دیتے ہیں 243میں تنخواہ، الاؤنس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان بارکونسل نے فروغ نسیم کی وکالت کالائسنس بحال کردیا۔

گذشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا تھا ایسی غلطیاں کی گئیں کہ ہمیں تقرری کوکالعدم قراردینا ہوگا، سمری میں دوبارہ تعیناتی،تقرری،توسیع کانوٹیفکیشن جاری کیا،اب بھی وقت ہے دیکھ لیں، حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا سمری کےمطابق وزیراعظم نےتوسیع کی سفارش ہی نہیں کی، سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کیا کسی نے سمری،نوٹیفکیشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی، کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی، آرٹیکل243کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تھا کہ ترمیم آرمی رول میں کی جو چیف آف آرمی اسٹاف پرلاگو نہیں، آرمی چیف افسران سےاوپرہےایک اسٹاف ہیں، آرمی چیف کمانڈر ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں، 255 میں آپ نےترمیم کی آرمی چیف اس کیٹیگری میں نہیں آتے، آرمی چیف ریگولیشن میں ذکرنہیں اور جس سیکشن 255میں کل ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سےمتعلق ہی نہیں۔

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا ،ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں زیرسماعت آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کیس پر مشاورت کی گئی اور عدالتی اعتراضات دورکرنےسے متعلق ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کی منظوری دے دی تھی ، سمری میں تقرری کے بجائے توسیع کا لفظ شامل کیا گیا ہے، نئی سمری خصوصی میسنجرکے ذریعے بھجوائی گئی تھی، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد سمری ایوان صدر ارسال کردی گئی تھی ، صدرمملکت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی سمری کی منظوری دیں گے۔

اس سے قبل سماعت میں سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے اور جواب طلب کرلیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا تھا وزیراعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیارنہیں، صرف صدر پاکستان آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا تھا مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔

بعد ازاں وفاقی کابینہ نےملٹری ایکٹ میں ترمیم کرکےنیا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نےآرمی چیف کی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کانوٹیفکیشن19اگست کوجاری کیاتھا، نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

تایا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ملک کی مشرقی سرحد کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کیا، فیصلہ کرتے ہوئے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال، خصوصاً افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کے تناظرمیں کیا گیا۔

بعد ازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری کے نوٹیفکیشن پر دستخط کر دیے تھے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت پاک فوج کے آرمی چیف ہیں، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں 29 نومبر 2016 کو پاکستان کا 16 واں سپہ سالار مقرر کیا تھا اور ان کی مدت ملازمت 29 نومبر 2019 کو ختم ہونا تھی، تاہم اب وہ مزید تین سال آرمی چیف کے عہدے پر رہیں گے۔

Email This Post

آپ یہ بھی پسند کریں گے مصنف سے زیادہ

تبصرے بند ہیں.