حکومت نے بائیو گیس پلانٹس لگانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا

حکومت سندھ کے محکمہ توانائی نے صوبے کے ان علاقوں میں متبادل توانائی کو فروغ دینے کے لیے بائیو گیس پلانٹس لگانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جن علاقوں میں قدرتی گیس دستیاب نہیں اور مقامی لوگ کھانا پکانے اور توانائی کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی کرکے لکڑی جلاتے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے والی معروف تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف سمیت کئی سماجی تنظیموں نے ماحول کو بچانے کے لیے اپنے طور پر ملک میں متبادل توانائی کے منصوبوں پر کام کیا ہے لیکن ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک حکومتی سطح پر ایسے منصوبوں میں بھرپور شرکت نہیں ہوگی تب تک متبادل توانائی کے ذرائع عام نہیں ہوسکیں گے، ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ اور سانگھڑ میں بایو گیس کے پلانٹس لگائے ہیں۔اس سلسلے میں جب ڈبلیو ڈبلیو ایف کے صوبہ سندھ میں تعینات منیجر کنزرویشن الطاف شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے   بتایا کہ ان کے لگائے گئے بایو گئس پلانٹس کامیابی سے کام کر رہے ہیں لیکن متبادل توانائی کی اس اہم ٹیکنالاجی کو عام کرنے کے لیے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔

 ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ترجمان آصف سندیلو کے مطابق اس ٹیکنالوجی کو عام کرنے کے لیے حکومت کو بایو پلانٹس لگانے پر سبسڈی دینی چاہیے، بایو گئس پلانٹس کے لگنے سے نہ صرف درختوں کی کٹائی میں کمی آئے گی لیکن دیہات میں لکڑی جلاکر کھانا پکانے والی عورتیں ان کی صحت پر دہویں کے باعث ہونے والے مضر اثرات سے بھی محفوظ ہوسکیں گی۔

واضح رہے کہ بائیو گیس پلانٹس مال مویشیوں کے گوبر کے ذریعے گیس پیدا کرتے ہیں، ویسے تو یہ ٹیکنالوجی ملک میں پہلی مرتبہ 1974 میں متعارف کرائی گئی تھی لیکن حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باعث یہ متبادل توانائی مہیا کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ابھی تک عام نہیں ہوسکی جس کے باعث ملک کے اکثر دیہات میں جہاں قدرتی گئس کی سہولت میسر نہیں۔مقامی لوگ درختوں کی کٹائی کرکے کھانا پکانے اور دیگر گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے لکڑی جلاتے ہیں، لکڑی کے بے جا استعمال سے ایک طرف درختوں کی کٹائی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس کے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

Email This Post

آپ یہ بھی پسند کریں گے مصنف سے زیادہ

تبصرے بند ہیں.