عالمی اُردو میلہ، ”اُردو فکشن ۔ معاصر منظر نامہ“ کے موضوع پر سیشن
قرۃ العین حیدر نے مشرق اور مغرب کا بہت خوبصورت امتزاج پیش کرکے کئی افسانے تحریر کیے، اس کے بعد عصمت چغتائی آئیں اور پھر راجندر سنگھ بیدی، یہ سب اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے ہی لکھتے رہے۔
عرفان جاوید نے ”فکشن کیوں پڑھا جائے“ کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ روسی دانشور انتون چیخوف سے کسی نے پوچھا کہ تم کہانی کیوں لکھتے ہو ناول کیوں نہیں لکھتے تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنی چھوٹی سی زندگی میں وہ سب کہانیاں سنا دینا چاہتا ہوں جو میں سنانا چاہتا ہوں، چیخوف 44 سال کی عمر میں ہی انتقال کرگیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ کئی زندگیاں جی لے تو اُسے چاہیے کہ وہ فکشن پڑھے، فکشن کا ادیب ایک دُنیا تخلیق کرکے قاری کو دعوت دیتا ہے، فکشن کے مطالعے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں۔
اخلاق احمد نے ”جدید افسانے میں عصری حسیت“ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادب اپنے سماج کا آئینہ نہیں ہوگا تو ادب ہی کیوں کہلائے گا، ہمارا زمانہ کہنے کو تو ایک ہے مگر دراصل یہ دو زمانے ہیں، لکھنے والوں کے دو متوازن زمانےہیں، ایک ان کے لیے جو آزاد معاشرے میں لکھتے ہیں اور ایک ہمارے لیے کہ جہاں سانس لینا بھی مشکل ہے۔
انہوں نے کہاکہ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 28 سال صحافت میں گزارے ہیں مگر یہ بات میں بہت ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسی خاموش سنسر شپ آج ہے ایسی ہم نے کبھی نہیں دیکھی، قدغن لگانے والے سارا کام کر رہے ہیں اور سامنے کوئی بھی نہیں ہے۔
اسلام آباد سے آئے ہوئے اختر رضا سلیمی نے ”اُردو میں ناول کی کمی: ایک بحث“ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ شائع ہونے والے ناولوں کی فہرست مرتب کروں، 1869ء سے آج تک انگریزی کے ناول کی عمر 150 سال ہوچکی ہے جبکہ اُردو ناول کی عمر اس سے آدھی ہے، انگریزی ہر جگہ بولی جاتی ہے، اُردو دُنیا کی 5 بڑی زبانوں میں سے ایک ہے مگر ہم اس کو اپنے ہی ملک میں قومی زبان نہیں بنا سکے، اُردو اپنے ہی ملک میں دربدر ہے۔
لاہور سے آئے ہوئے خالد محمود سنجرانی نے ”جدید افسانہ اور سماجی معنویت“ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کلاسیکی کہانیاں ڈھول پر تھاپ جیسی ہیں، جو فرق ڈھول اور ڈرم میں ہے وہی فرق کہانی کی کلاسیکی اور جدید صورت میں سامنے آیا ہے، کہانی ایک آزاد پنچھی ہے جس کی آنکھوں میں جھیلیں ہوتی ہیں، شہروں کی فصلیں اس کے سینے پر، دریا اس کی لہر میں اور وسیع میدان اس کے پَروں میں مگر ظلم یہ ہوا کہ اس پنچھی کو جدیدیت کے پنجرے میں ڈال دیا گیا۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ”اُردو افسانے، 9/11 کے تہذیبی و سیاسی اثرات“ پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کا خیال آتے ہی جو الفاظ ذہن میں آتے ہیں ان میں دہشت گردی، تشدد اور عدم برداشت شامل ہیں مگر اب یہ سادہ الفاظ نہیں رہے، بلکہ اصطلاحات بن چکے ہیں، دہشت گردی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی۔
جاپان کے شہر ٹوکیو سے تعلق رکھنے والے ٹوکیو یونیورسٹی کے سویامانے یاسر نے ”جاپان میں اُردو افسانے کا مطالعہ“ پر اپنے مخصوص اور دل نشین انداز میں اُردو زبان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرانے جاپان میں ”عالم“ کا مطلب بدھ مت کا پیر ہوا کرتا تھا، پہلی جنگ عظیم کے بعد ہم عصر برصغیر کا مطالعہ شروع ہوا، ٹوکیو اور اوساکا میں اسکول آف فارن اسٹڈیز قائم ہوئے اور وہاں شعبہ ہندوستانی بنایا گیا، دوسری جنگ عظیم سے پہلے ”ادارہ دنیائے اسلام“ قائم ہوا اس ادارے سے ”باغ و بہار“ کا ترجمہ شائع ہوچکا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید ادب کا مطالعہ شروع ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ جاپان میں اب تک 200 سے زائد اُردو افسانوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
صبا اکرام نے ”روشن خیالی اور ہم عصر افسانہ“ پراظہارِ خیال کرتے ہوئے مختلف افسانہ نگاروں کے طرزِ تحریر پر روشنی ڈالی۔
تبصرے بند ہیں.