’قرضے کی تمام شرائط منظور ہیں‘ پاکستان کے آئی ایم ایف کیساتھ معاملات طے پا گئے

پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکج تین سال کا ہو گا ۔ جبکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے مجوزہ اثاثہ جات ڈیکلیئریشن اسکیم سے کسی قسم کے اختلاف کا اظہار نہیں کیا ۔ اثاثہ جات ڈکلئیریشن اسکیم کی منظوری کابینہ سے لی جائے گی ۔ قرضہ 6 ارب ڈالرہو یا 9 ارب ڈالر، اس بات کا فیصلہ آئی ایم ایف کے وفد کے دورہ پاکستان پر کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کے وفد کے دورے کی تاریخ اگلے ایک دو روز میں طے کی جائے گی۔ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج پر دستخط اپریل کے وسط میں کر لیے جائیں گے ۔ اثاثہ جات ڈکلئیریشن اسکیم کو آئی ایم ایف کے دورے سے پہلے قانونی شکل دی جائے گی ۔وزیر خزانہ اسد عمر دورہ امریکہ کے بعد وطن واپس پہنچ گئے، ذرائع کے مطابق آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران وزیر خزانہ اسد عمر وزیر اعظم عمران خان کو دورہ امریکہ سے متعلق آگاہ کریں گے۔ ذرائع نے بتایاکہ وزیر خزانہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک حکام سے ملاقات بارے وزیر اعظم کو بریفنگ دیں گے۔ ذرائع نے بتاکہ مالیاتی پیکج پر آئی ایم ایف وفد آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان آئیگا۔‎دوسری جانب وفاقی وزیر خارجہ اسد عمر نے کہاہے کہ معیشت میں استحکام میں مزید ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا اور حکومت معاشی بہتری کے لیے ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں پر کام کر رہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت میں بہتری آئے گی ،حکومت کے تیسرے سال سے ترقی کا آغاز ہوگا ۔پاکستانی کمیونٹی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی 5سالہ مدت کے 3مراحل ہیں، پہلے مرحلے میں ابتدائی چند ماہ میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا تھا اور اللہ کا شکر ہے کہ وہ مرحلہ کامیابی سے گزر گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ہم استحکام کے مرحلے میں ہیں، اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد ستمبر میں اندازہ لگایا تھا کہ ہمیں ملکی معیشت میں استحکام کیلئے 2سال اور تیسرے سال سے ترقی کا آغاز ہو گا جو میرے خیال میں اب بھی ایک اچھا اندازہ ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ ہمیں معیشت کی بہتری میں مزید 18ماہ لگیں گے جس کے بعد بہتری آنا شروع ہو گی لیکن ہمیں اس بات پر یقین ہے اس مرتبہ اقتصادی ترقی پائیدار ہو گی اور یہ مالی خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے متاثر نہیں ہو گی۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا بار بار سامنا ہے اور مجھے کوئی ایسی حکومت یاد نہیں پڑتی جسے ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور اس نے آئی ایم ایف سے مدد طلب نہ کی ہو۔انہوں نے 1988، 1999، 2008، 2013 اور 2018 میں بحرانی صورتحال ایک ہی طرح کی تھی۔اس کا مطلب یہ ہے ڈھانچے میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہے اور اسی لیے حکومت ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں پر کام کر رہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن شروع کرنے کا اصولی فیصلہ قومی معیشت کے بہترین مفاد میں کیاگیا اور آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت میں بہتری آئے گی۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا وفد تکنیکی معاملات طے کرنے کیلئے آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان پہنچے گا۔اسد عمر نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتربنانے کی خواہش کااظہارکیاتھا اورتجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی پیشکش کی تھی، خطے میں تجارتی سرگرمیوں سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔پاکستان نے اپنی معیشت میں بہتری کے لیے گزشتہ سال اکتوبر میں ایک مرتبہ پھر مالی معاونت طلب کی تھی اور اس کے بعد سے اب تک اس کی آئی ایم ایف سینئر حکام سے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

Email This Post

آپ یہ بھی پسند کریں گے مصنف سے زیادہ

تبصرے بند ہیں.