ناسا کے لیے نئے پلوٹونیم کی تیاری

امریکا میں قائم خلائی ادارے، ناسا،کو اُمید ہے کہ انسان کا تیار کردہ نیاتاب کار عنصر،پلوٹو نیم ۔238 (plutonium-238) ناسا کے سب سے طویل آپریٹنگ اور دُور تک پرواز کرنے والے خلائی جہاز کے لیے کار آمد ثابت ہو گا ۔اگر چہ تقریباً تمام پلوٹونیم ۔238 سرد جنگ کے دوران بنائےگئے تھے ،لیکن اب امریکی ڈپارٹمنٹ آف انرجی کے ماہرین مزیدنئے پلوٹونیم بنا رہےہیں۔ اس نئے پلوٹو نیم کو بہتر کرنے کے لیے سائنس دانوں نے ٹینیسی (Tennessee)نامی ایک روبوٹ بنایا ہے۔ امریکا میں قائم اوک ریج نیشنل لیباریٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیا روبوٹ پلوٹونیم کی پیداوارکے ضمن میںاہم قدم ہےاوریہ ناسا کو درکار پلوٹونیم کی ضروریات بہ خوبی پورا کرسکے گا ۔ماہرین کے مطابق یہ نیا روبوٹ پلوٹونیم کی قابل اعتماد اورطویل عرصے تک برقرار رہنے والی سپلائی چین تیار کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔ واضح رہے کہ ناسا کو گہری خلاء کو دریافت کرنے کے لیے تاب کار مواد کی ضرورت ہے ۔ناسا پلوٹو نیم -238کی مددسےاپنے خلائی مشنز کومزید مستحکم کرےگا ،جن میں نیو ہورائزن ، ووئیجرز (voyagers) اور انٹر اسٹیلر اسپیس شامل ہیں۔یہ پلوٹونیم جو تاب کار توانائی خارج کرتا ہے، اس میں سے کچھ توانائی بجلی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یادرہے کہ پلوٹونیم ۔238 کو ٹھنڈا ہونے میں کافی عرصہ لگتا ہے ۔

انسان کا تیار کردہ پلوٹو نیم ۔238 بہت اہمیت کا حامل موادہے۔تاہم 1990 ء میں اس کی سپلائی کم ہو گئی تھی اور اس کمی کا سلسلہ 2012ء تک جاری رہا ،کیوں کہ ایجنسی اور اس کے پاٹنرز کے پاس پلوٹونیم کو دوبارہ تیار کرنے کے لیے فنڈنگ نہیں تھی ۔ بعدازاں ماہرین نے اس کے لیے سالانہ 20 ملین ڈالرزکے فنڈز حاصل کیے۔ پھر ماہرین نے باقاعدہ طور پر اس کی پروڈکشن کا سلسلہ شروع کیا ۔ اب ڈپارٹمنٹ آف انرجی کو اُمید ہے کہ 2025ء تک ناسا کی سالانہ 3.3پونڈز (1500 گرامز) کی ضرورت پوری ہوجائیں گی۔اوک ریج نیشنل لیباریٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ نئے خود کارروبوٹ کی مدد سے پلوٹو نیم- 238 کی دوسال قبل کی پیداوارکے مقابلے میں8گنا اضافہ ہو جا ئے گا ۔یاد رہے کہ اس لیباریٹری نے ناسا کے لیے پہلا پلوٹو نیم دسمبر 2015ء میں بنایا تھا۔لیکن وہ صرف1.8اونس (50گرام) تھا ،جو بہت کم مقدار تھی۔مگر اس پرانے طریقےنے زیادہ عر صے تک کام نہیں کیا۔اسی وجہ سےسائنس دانوں کو مزید پلوٹو نیم بنانے کے لیے نیا طریقہ متعارف کرانا پڑا ۔اوک ریج نیشنل لیباریٹری کے ماہر ،جیسن ایلسن کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا قدم ہے، جس کا مقصد پلوٹونیم کی پیداوار کو 14 اونس (400 گرام ) سالانہ تک بڑھانا ہے۔یہ ایک موثر عمل بھی ہے ۔ان کے مطابق پلوٹو نیم -238 کا ایک بیچ شروع ہونے میں 28 سے36ماہ لگتے ہیں اور یہ عمل نیپٹو نیم -237 نامی ایک ابتدائی مواد کی ضرورت ہوتا ہے ۔ پلو ٹونیم بننے کے عمل کے دوران نیپٹونیم ۔237کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو ایلومینیم کے اندر ڈالا جاتاہے،پھر اسے اوک ریج نیشنل لیباریٹری میں موجود خصوصی نیوکلیر ری ایکٹر میں داخل کیاجا تا ہے۔اسے ’’ہائی فلیکس آئسوٹوپ ری ایکٹر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ماہرین کے مطابق اس ری ایکٹر میں چند ماہ تک عمل ہونے کے بعد کچھ نیپٹونیم -237 سےپلوٹونیم -238 میں تبدیل ہوجائیںگے ۔تاہم انہیںجوہری ہتھیاروں میں استعمال نہیں کیا جا تا ۔ اپناہدف مکمل کرنے کے بعد کئی ماہ تک تالا ب میں رہ کریہ ٹھنڈا ہوجاتاہے ۔اس کے بعد ماہرین اسے کیمیکل میں حل کرکے کیمیائی طورپرپلوٹو نیم اور نیپٹونیم کو الگ کرکےان دونوں میں موجود آلودگی کو صاف کرتے ہیں۔ سائنس دانوں نےصاف اور شفاف پلوٹونیم کو ناسا کے استعمال کے لیے مخصوص کیا ہےاور نیپٹونیم کودیگر اہداف کے لیے علیحدہ کر دیا گیا ہے ۔

Email This Post

آپ یہ بھی پسند کریں گے مصنف سے زیادہ

تبصرے بند ہیں.