ہالی ووڈ اور پاکستانی فلم میکرز کے موضوع پر پینل ڈسکشن
پاکستان فلم انڈسٹری اپنے احیاء سے گزر رہی ہے، مسائل بے شمار ہیں، سرکاری سطح پر کوئی سپورٹ نہیں کرتا، پورے ملک میں 160سینما اسکرین پر فلم ریلیز کی جاتی ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینما گھر نہ ہونے کے برابر ہیں، ملک کے 16 شہروں میں سینما گھر ہیں، جدید سہولتیں میسر نہیں ہیں۔
ان خیالات کا اظہار امریکی قونصلیٹ جنرل کراچی اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تعاون سے ہالی ووڈ اور پاکستانی فلم میکرز کے موضوع پر منعقدہ پینل ڈسکشن میں Alix Madigan, Maria Raquel Bozzi، ندیم مانڈوی والا، سلطانہ صدیقی، فضاء علی میرزا اور بدر اکرم نے کیا۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ سائونڈ کی بہتر کوالٹی کے لئے ملک سے باہر جانا پڑتا ہے، فلم اسٹوڈیوز ختم ہوگئے ہیں اب بہترین فلم بنانے کے لئے کہاں جائیں، فلم میکنگ پڑھنے والوں کو عملی طور پر کچھ نہیں آتا، فلم کے ذریعے اپنا کلچر روشناس کرواسکتے ہیں، 30 اُردو اور 50 پنجابی فلمیں بنتی رہیں، 115 فلمیں سالانہ ریلیز ہوتی تھیں اب 20فلمیں سالانہ بن رہی ہیں۔ 15 سے 20 کروڑ روپے لگاکر فلم بنانی پڑتی ہے، پروڈکشن ہاؤسز خراب صورتحال سے گزررہے ہیں۔
سینما اونر اور فلم پروڈیوسر ندیم مانڈوی والا نے کہا کہ دُنیا بھر میں سنیما بہت ہیں، پاکستان میں سینما کی تعداد کم ہے، پاکستانی پروڈیوسرز کی مشکل یہ ہے کہ وہ سینما مالکان سے توقعات رکھتے ہیں کہ وہ ان کی فلموں کو کامیاب کرانے میں کردار ادا کریں گے جبکہ دُنیا بھر میں فلموں کے میوزک رائٹس، ڈیجیٹل رائٹس، ٹی وی ڈراموں کے رائٹس فروخت کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں مارکیٹنگ وقت کا تقاضا ہے جو ہمارے ہاں نہیں ہورہا ہے، پاکستانی اور بالی ووڈ فلمیں ڈی وی ڈی پر فروخت ہوتی ہیں اور اکثر بالی ووڈ کی فلمیں سینما ہوتے ہوئے 24 گھنٹے میں کیبل اور ڈی وی ڈی پر آجاتی ہیں۔
پروڈیوسر سلطانہ صدیقی نے کہا کہ فلموں کا ریوائیول ہورہا ہے لیکن پروڈیوسر ذاتی طور پر کوشش کرکے فلمیں بنا رہے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر ہمیں کوئی سپورٹ نہیں کی جاتی، ہم ڈرامے کی طرح فلموں کو بھی بین الاقوامی سطح پر شناخت دینا چاہتے ہیں، ہماری فلمیں کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔
فلم پروڈیوسر فضا علی میرزا نے کہا کہ 15 سے 20 کروڑ روپے لگاکر فلم بنانے والے کو جن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے، اس کا احساس وہی کرسکتا ہے، سینما اور ڈسٹری بیوٹرز انڈسٹری کے لوگ متحد ہیں، وہ اپنی بات منوالیتے ہیں، پروڈیوسر کو بہت نقصان بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی فلم اسکول نہیں ہے مختلف یونیورسٹیز میں فلم اور ڈرامہ میکنگ کی تعلیم دی جارہی ہے لیکن اسکرپٹ رائٹر کا فقدان ہے اور عملی طور پر ہمارے ہاں فلم میکنگ کے طالب علموں کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لئے فلم اسکول کی سہولت میسر نہیں، پاکستان میں DOP بہت باصلاحیت ہے، ان کے معاوضے اتنے ہیں کہ ہم افورڈ نہیں کرپاتے اور اس میں گورنمنٹ ہمیں بالکل سپورٹ نہیں کرتی۔
پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے صدر بدر اکرم نے کہا کہ ملک میں ایک دور میں 800 سے زائد سینما گھر تھے، اب صرف سندھ اور پنجاب میں جدید اور قدیم سینما گھر ہیں جن کی تعداد بہت کم ہے، اس کے باوجود فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں اور یہ بحرانی دور 80ء کی دہائی میں آیا، جس میں فلم اور ڈرامہ انڈسٹری مختلف قسم کی پابندیاں لگی رہیں جس کے باعث 20سال تک فلم انڈسٹری کو بحران کا سامنا رہا، مشرف دور میں آزادی ملی تو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو فروغ حاصل ہوا، جدید سینما اور فلم سازی کا آغاز ہوا اب سالانہ 18سے 20فلمیں پاکستان میں بن رہی ہیں اور بیرونِ ملک میں بھی پیش کی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے زرمبادلہ بھی آرہا ہے۔
Maria Raquel Bozzi نے کہا کہ فلم میں موسیقی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے تربیت ہونی چاہئے تاکہ موزوں کام کیا جاسکے۔
قبل ازیں آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے پینل ڈسکشن کا آغاز کرتے ہوئے ملکی فلم انڈسٹری کی ماضی اور حال کی صورتحال پرروشنی ڈالی۔
ان کا کہنا تھا کہ 60ء اور 70ء کی دہائی پاکستان فلم انڈسٹری کے عروج کا دور تھا، ہم انڈین فلم انڈسٹری کے مقابلے پر فلمیں بناتے تھے، پاکستان فلم انڈسٹری اب ریوائیول ہورہی ہے، یہ مذاکرہ پاکستان تاریخ میں انڈسٹری کے لئے اچھا وقت ہے، نوجوانوں کو آرٹس اور کلچر کو دوبارہ دُنیا بھر میں اُجاگر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ مستقبل میں تخلیقی کام کرنے والوں کے لئے فلم انڈسٹری میں روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔
نظامت کے فرائض امریکی قونصلیٹ جنرل کراچی کے پبلک افیئرز آفیسر Jason Green نے انجام دیئے۔
Email This Post
تبصرے بند ہیں.