عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی میں اضافے سے خواتین کو انصاف تک رسائی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، ماہرین

جسٹس ریٹائرڈ نا صرہ جاوید اقبال نے کہا کہ پاکستان میں، بڑھتی ہوئی آبادی کے مقابلے میں عدالتوں کی تعداد مقدمات کو نمٹانے کے لئے نا کافی ہیں ، جس سے خاص طور پر خواتین کی انصاف تک رسائی کو محدرو کر دیا ہے۔ لہذا، ملک بھر میں زیادہ عدالتیں ، خاص طور پر فیملی کورٹ کو قائم کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھانے سے خواتین کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ وہ ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام اور یو این ویمن کے تعاون سے ’ ‘پاکستان میں خواتین کی انصاف تک رسائی بڑھانے میں عدلیہ کا کردار ‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار میں کر رہی تھی۔ سیمینار سے محترمہ خاور ممتاز، طاہرہ عبد اللہ، بینظیر جتوئی، نایاب علی خان اور ڈاکٹر شفقت منیر نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔
جسٹس ریٹائرڈ نصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ سب سے پہلے، ہمیں اپنے آئین کو اس کی اصل حیثیت میں بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے موجوہ قوانین میں بہت سے قوانین ایسے ہیں جن پر اگر مؤثر طریقے سے عملدرآمد ہو تو متاثرین کو خاص طور پر خواتین کو فوری انصاف مل سکتا ہے۔ معاشرے میں خواتین کو شامل کرنے او ر ان کو معاشرے کے لیے کار آمد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انہیں فیصلہ سازی میں شامل کریں۔ .انہوں نے زور دیا کہ میڈیا کو خواتین کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرناچاہیے ۔
این سی ایس ڈبلیو کی چیئرمین ، خاور ممتاز نے کہا کہ تشدد کی شکار خواتین کو داد رسی کے بعد اُن کے حقوق محفوظ بنانے کے لئے کوئی طریقہ کار ؤضع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں داد رسی کے علاوہ بھی خواتیں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سوچنا ہو گا۔ .انہوں نے مزید کہا کہ عوام میں ان کے آئینی حقوق کے بارے میں آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن طاہرہ عبد اللہ نے کہا کہ صرف عدلیہ میں خواتین کی شمولیت میں اضافے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شعبے میں، خصوصا پولیس سروس میں بھی خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں شواہد، گواہی، او ر قانونی میڈیکل رپورٹس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جو پورے عدالتی نظام کی ناکامی کی وجہ بھی ہے جس میں فوری مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے.
بیرسٹر اور انسانی حقوق کی ماہر بینظیر جتوئی نے کہا کہ ہمارے آئین میں فریم ورک موجود ہے جو ہمارے حقوق کی حفاظت کرتا ہے لیکن مؤثر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ . انہوں نے کہا کہ غیر رسمی عدالتی نظام، جرگہ اور پنچایت، پاکستان میں اب مزید نہیں چل سکتا، جسے 2006 میں سپریم کورٹ نے پہلے ہی سے غیر قانونی قرار دے دیا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کہ غیر رسمی عدالتی نظام کا مقابلہ کرنے کے لئے کمیشن برائے خواتین (این سی ایس ڈبلیو ) کو سو موٹو کی طاقت کا اختیار دے دیا جانا چاہیے ۔ .ٹرانس جینڈر کے حقوق کے سرگرم کارکن نایا ب علی خان نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کو معاشرے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا اور وہ معاشرے سے نکال دیے گئے ہیں ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے آئینی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے او ر مکمل حفاظت فراہم کی جائے ۔
ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر شفقت منیر نے کہا کہ کئی معاشی، معاشرتی اور اقتصادی عوامل ہیں جو خواتین کے انصاف کی راہ میں روکاوٹ ہیں، جس میں اقتصادی وسائل کی کمی، سماج اور خاندان کی حمایت ، بدنامی، عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کی کمی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمی اور ملک کے عدالتی نظام کی نا اہلی شامل ہیں۔ اس پورے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Email This Post

آپ یہ بھی پسند کریں گے مصنف سے زیادہ

تبصرے بند ہیں.